اجمل ساجد
اجمل ساجد ضلع رحیمیارخان نال تعلق رکھݨ والا نوجوان تے انقلابی ڳویا اے جیندے گیت پورے سرائیکستان وچ سݨے ویندن.
سرائیکی گلوکار اجمل ساجد دا پتر ٹریفک حادثے وچ جاں بحق تھی گیا ہئی۔ تفصیل دے مطابق سرائیکی گلوکار اجمل ساجد دا نو عمر پتر ثقلین اجمل جیہڑا کہ گورنمنٹ سیکنڈری سکول مراد پور وچ نانویں جماعت دا طالبعلم ہئی تے چھٹی دے بعد موٹر سائیکل تے سوار تھی کے اپݨے گھر جندو پیر کمال ویندا پیا ہئی کہ اچانک سامݨے توں آوݨ والے سائیکل نال ٹکرا کے سڑک تے ونج پیا۔ سر وچ شدید چوٹ آوݨ نال ثقلین اجمل موقع تے ہی دم توڑ گیا۔ نو عمر طالبعلم دی حادثاتی ہلاکت تے علاقہ وچ سوگ دی کیفیت طاری رہی۔ انا للہ وانا الیہ رٰجعون. اے سانحہ سرائیکی وسیب کوں کڈہیں نہ بھلسی کیونکہ اجمل ساجد سرائیکی وسیب دا ہیرو اے.
سرائیکی شہزادہ ۔۔۔
ایک چور گلوکار
جس نے پیسے کو دین ایمان بنایا ہوا ہے
ایک شرابی
خود غرض
دھوکہ دہی
نہ جانے کتنے رنگ دیکھے ہیں
اجمل ساجد شہرت کے نشے میں اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکا
میرے دوست اجمل ساجد ۔۔۔۔ آج سے کوئی دس بارہ سال پہلے جب سرائیکی صوبہ تحریک کا کام نوجوان نسل میں منتقل ہورہا تھا اس وقت اس دھرتی کے سپوت نے اپنا پہلا سرائیکی ترانہ گایا " اساں لوک سرائیکی ، ساڈی جھوک سرائیکی " جو چند ھی دنوں میں سرائیکی وسیب کے کونے کونے میں مشھور ہوگیا اور یوں ایک نئی جدت سرائیکی عوام میں آ گئی اپنے رسم و رواج اپنے عظیم اور قدیم ثقافت کا شعور ہر سرائیکی تک پہنچنے لگا ۔۔۔۔ اسی دوران یزمان سے تعلق رکھنے والے چند شر پسند عناصر نے تھانہ بہاولپور میں درخواست دے دی کے جناب یہ گلوکار یہاں لسانیت پھیلا رہا ہے ۔۔اجمل ساجد کو تھانہ بہاولپور بلایا گیا ۔۔اللّه کے فضل و کرم سے وسیب کا بیٹا ووہاں سرخرو ہوا اپنے دو ٹوک بیان سے اور معاملہ ٹھنڈا ہوگیا ۔۔۔۔۔ پھر جب عوام میں علیحدہ صوبے کی بات زور پکڑنے لگی اور خانبیلا میں ایک سرائیکی صوبے کے نام پے جلسہ کیا گیا ووہاں پے اجمل ساجد نے پہلی بر دو ٹوک الفاظ میں اپنا ترانہ گنگنایا ۔۔۔
" ساڈی روہی نہ نیلام تھیسی ، ساڈی شان برابر شان ہوسی "
"مک ویسن درد تمام جڈاں بنڑسی سرائیکیستان جڈاں "
سرائیکی عوام کو اپنے حق مانگنے اور پیار اور امن سے تحریک چلانے کا درس اپنی موسیقی سے دیا ۔۔۔۔ آگے چلتے ھیں ۔۔۔۔ وسیب میں آیا سیلاب تو سب کو یاد ہوگا ۔۔۔ جب وسیب کئی شہر ۔۔بستیاں ۔۔۔ دریا میں به گئے ۔۔۔ اس ٹائم بھی اجمل ساجد ھی تھا جس نے وسیب کے درد کو اپنی آواز میں گایا اور انٹرنیشنل سطح پہ یہ بات پہنچائی ۔۔بی بی سی کی وہ 10 منٹ کی رپورٹ آج بھی مجھے یاد ہے ریڈیو پے سنی تھی میں نے اس میں ررپورٹر وسیب کی تباہی بیان کر رہا تھا اور اجمل ساجد کو خراج تحسین بھی پیش کر رہا تھا کے آپ نے وسیب کا درد دوسروں کو بتایا ۔۔۔۔۔۔خیر آتے ھیں اصل مدے پے ۔۔
چند ماہ قبل پیر ذولقرنین شاہ بخاری جو۔ اجمل ساجد کے بہت اچھے دوست ھیں آئے چاچو سے ملنے ۔۔اور پرزور فرمائش کی کے اجمل بھائی میں الیکشن لڑ رہا ہوں مجھے ترانہ ریکارڈ کرا دو ۔۔۔اجمل ساجد نے کہا ۔۔مرشد ست بسم اللّه ۔۔کیوں نہں ۔۔۔۔ انہوں نے کہا کے جس میں نواز شریف شہباز شریف کی تعریف هو ۔۔۔اجمل ساجد نے ہاتھ جوڑ لیے مرشد آپکی ذات سر آنکھوں پے پر میں وسیب کے دشمن کی تعریف نہں کر سکتا مجھے معاف کر دیں ۔۔میں نہں گاؤں گا ۔۔۔ اپنے دوست کے پرزور اسرار پے اس شرط پے آمادگی ظاہر کی کہ میں آپکے لیے چند الفاظ گنگنا دوں گا ۔۔۔ اسی دوران کراچی گئے اور انکا ایک ترانہ گایا پیر ذولقرنین کے لیے ۔۔۔۔۔انکے ایک چاہنے والے نے کچھ دنوں پہلے وہی ترانہ فیسبک پے ڈال دیا اور ساتھ اجمل ساجد کی تصویر لگا دی ۔۔۔
بس پھر کیا تھا ۔۔۔ کراچی میں۔ بیٹھ کے چند دوستوں نے بغیر کسی تصدیق کے اجمل ساجد کے خلاف گالیاں بکواس اور بائیکاٹ پتا نہں کیا کیا پوسٹ کر دیا ۔۔۔بس پھر کیا جو جو وہ پوسٹ پڑھتا گاگیا اپنے اپنے شعور کا ثبوت دیتا گایا اور گالیاں بکتا گایا ۔۔۔۔کسی نے یہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا کہ کیا یہ ویڈیو اجمل ساجد نے بنائی۔ ہے یا کسی اور نے یہ بھی دیکھنا گوارا نہ کیا کے وہ چند دن پہلے پی ٹی آئ کا ایک سرائیکی زبان میں ترانہ ریکارڈ کرا آہے ھیں عمران خان کے لیے ۔۔۔اور اپنی فیسبک وال پے وہ یہ واضح بھی کر چکے ھیں ۔۔۔۔۔
افسوس کے ہم سرائیکی اپنے آپ ک کا درس دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔آمین ۔۔ [١]