ڳالھ مہاڑ:سرائیکی ڈکشنریاں

پروفیسر دلشاد کلانچوی کی دو کتابوں کا تعارفی و تحقیقی جائزہ سرائیکی زبان تے اَدب، سرائیکی زبان اور اُسکی نثر تحریر و تحقیق: ڈاکٹر خالد اِقبال پروفیسر دلشاد کلانچوی کی کتاب ’’سرائیکی زبان تے اَدب‘‘ مئی 1987ء میں سرائیکی اَدبی مجلس، بہاولپور کی طرف سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب اَکادمی اَدبیات پاکستان کی جانب سے ایوارڈ یافتہ ہے۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی اپنی اِس کتاب ’’سرائیکی زبان تے اَدب‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب سرائیکی زبان تے اَدب، پانچ اَبواب پر مشتمل ہے اور میری تمام عمر کی تحقیق و مطالعے کا نچوڑ ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اِس میں سرائیکی زبان و اَدب کے باغ کی تمام بہاریں آجائیں، سارے رنگ اور ساری خوشبوئیں آ جائیں۔ اِسی وجہ سے اِسے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ ہر حصے کا الگ الگ تأثر قائم ہوجائے اور سرائیکی زبان و اَدب کے سفر کا واضح طور سے پتہ چل سکے۔‘‘ (۱) پروفیسر دِل شاد کلانچوی نے اِس کتاب میں دئیے گئے اَدبی مواد کو مختلف موضوعات کے تحت لکھا ہے جسے سرائیکی زبان و اَدب کی مختلف اصناف کی جائزہ شماری بھی کہا جاسکتا ہے۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی اِس کتاب ’’سرائیکی زبان و اَدب‘‘ میں اَدبی تاریخ نویسی کے مزاج کی اِبتدائی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اگرچہ اُن کی یہ کتاب مکمل اَدبی تاریخ کے مطالبے کو پورا نہیں کرتی مگر جزوی طور پر سرائیکی اَدبی تاریخ شُمار کی جاسکتی ہے اور مستقبل میں اَدبی تاریخ لکھنے والے مؤرخین کے لیے بنیادی مواد مہیا کرتی ہے۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی یہ کتاب سرائیکی زبان و اَدب کے آغاز و اِرتقاء، دیگر زبانوں سندھی، عربی، فارسی، پنجابی کے ساتھ رشتے تعلق کا لسانی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اِس کتاب میں سرائیکی شاعری کی اصناف، نعت، مرثیہ کافی، غزل، مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ، نثری اصناف، افسانہ، ڈرامہ، ناول، تراجم بارے اِرتقائی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں مصنف نے سرائیکی اَدب کو مختلف اَدوار میں تقسیم کرنے کی بجائے موضوعاتی انداز سے الگ الگ جائزہ پیش کیا ہے۔ مثلاً:

  • سرائیکی زبان * سرائیکی اَدب * سرائیکی زبان کا لوک وِرثہ
  • سرائیکی شاعری * جدید نثری اَدب * سرائیکی کی لاثانی کتابیں

مصنف دِل شاد کلانچوی کی اِس کتاب ’’سرائیکی زبان تے اَدب‘‘ میں اَدبی تذکرہ و تاریخ نویسی کی خصوصیات باہم ملتی دکھائی دیتی ہیں۔ مگر ایک مؤرخ کے طور پر ان کا بیانیہ پہلے سے موجود تحقیق، اَدبی تاریخ کے احوال اور تأثر کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ کتاب سرائیکی زبان و اَدب، اس کی مختلف اَصناف بارے 1980ء تک سرائیکی اَدبی پیش رَفت کا جائزہ پیش کرتی ہے۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی نے یہ کام یقیناًناموافق حالات میں کیا جب سرائیکی زبان میں لکھنے کے شعور کو بہت زیادہ پذیرائی نہ تھی اور سرائیکی زبان میں کتابیں، رسائل شائع کرانا، معاشی اِعتبار سے مشکل تھا۔ تاہم اُن کی یہ کتاب سرائیکی اَدب کے طالبِ علموں اور سرائیکی اَدب سے دِل چسپی رکھنے والوں کے لیے اہمیت کا دَرجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹر قاسم جلال لکھتے ہیں: ’’سرائیکی زبان تے اَدب‘‘ مستند تاریخی اور معلوماتی کتاب ہے۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی نے یہ معلوماتی کتاب لکھ کر، اَدبی دنیا کو سرائیکی اَدب سے شناسائی دی۔ یہ یادگار کتاب اَدب کے طالب علموں مؤرخین و محققین کے لیے روشنی کا مینارہ ثابت ہوگی۔‘‘ (۲) پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی یہ کتاب تحقیق کے جدید اُصولوں کے مطابق نہیں لکھی گئی۔ گذشتہ سے پیوستہ متن یا مآخذ بارے نشان دہی نہیں کی گئی البتہ کتاب کے آخر میں فہرست کتابیات درج کی گئی ہے جہاں سے اِستفادہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کسی اَدبی صنف، تخلیق کاروں کے فکر و فن بارے مصنف کا تجزیہ تأثراتی تنقید پر مبنی ہے۔ مثلاً: ’’ظفر لاشاری نے 1965ء سے سرائیکی افسانہ لکھنا شروع کیا اور بے شمار افسانے لکھ چکے ہیں۔ اُن کے افسانوں کا مجموعہ ’’تتیاں چھانواں‘‘ چھپ چکا ہے۔ اُن کے افسانے مواد اور تکنیک، زبان کے لحاظ سے بہت معیاری ہیں اُن کا طرزِ بیاں بہت خوبصورت، سادہ اور بامحاورہ ہے۔‘‘ (۳) پروفیسر دِل شاد کلانچوی ’’سرائیکی زبان تے اَدب‘‘ کے علاوہ ’’سرائیکی اور اُس کی نثر: ایک مختصر تاریخی خاکہ‘‘ لکھ چکے ہیں۔ یہ دونوں کتابیں سرائیکی کی جزوی اَدبی تاریخ شمار کی جاسکتی ہیں۔ اُنہوں نے یہ کتب لکھتے ہوئے تاریخی تناظر اور اَدبی اسلوب کو سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی، سرائیکی اَدب کی اصناف کا تعارف اجمالی طور پر پیش کرتے ہیں۔ مختصر تمہید کے بعد وہ صنف اَدب میں لکھنے والے تخلیق کاروں کی کتابوں کا تعارف مختصراً ایک محتاط تنقید نگار کے طور پر کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا تجزیہ محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ البتہ تاریخی تناظر میں سرائیکی اَدب کا اِرتقاء، اِرتقاء کی منزلوں میں سماجی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، تاریخی شعور میں تبدیلی، اصنافِ اَدب میں موضوع و ہیئت یا اسلوب کی تبدیلی، یا فکری رجحانات، کسی اَدبی تحریک بارے کوئی واضح بیان پڑھنے کو نہیں ملتا۔ تخلیق کاروں کے سوانحی حالات بھی اس کتاب میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی کا ذوق، اَدب اور اَدبی مواد کی جمع آوری کے رجحان کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو اُن کے محقق، مؤرخ اور تاریخ نویس ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ مُحقق، دانشور، پروفیسر شوکت مُغل لکھتے ہیں: ’’دِل شاد کلانچوی کے تاریخ نویسی کے ذوق اور اَنداز کو دیکھ کر قاری بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ ان کا مزاج تاریخ لکھنے کے لیے خاصا موزوں ہے۔ تاریخ نویسی میں بنیادی بات خلوص اور بے لاگ رَوّیہ ہے جس میں تحقیق کے ساتھ ساتھ حقائق نگاری بھی ضروری ہوتی ہے۔ دِل شاد کلانچوی، تاریخ لکھتے ہوئے اپنی پسند نا پسند، کو حقائق پر غالب نہیں آنے دیتے۔ یہی اُن کی تاریخ نگاری کا نمایاں پہلو ہے۔ جہاں تک پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی غیر جانب داری اور حقیقت نگاری کا تعلق ہے اِس حوالے سے اُن کے مضامین کے اِس مجموعے میں بے لاگ تبصرہ اور حقیقت نگاری کی خوبیاں موجود ہیں۔‘‘ (۴) سرائیکی زبان و اَدب، اصنافِ اَدب، تخلیق کاروں کی مختلف جہتوں کے حوالے سے اُن کے اَدبی کام کی جائزہ شماری، پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی کاوِشیں بُنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ محقق، دانشور، حمید اُلفت ملغانی لکھتے ہیں: ’’سرائیکی زبان و اَدب کو آگے بڑھانے میں اور سرائیکی اَدب کو دیگر زبانوں تک شناسائی دینے کے سلسلے میں جو کام پروفیسر دِل شاد کلانچوی نے کیا ہے ایسا کام کئی بڑے اِدارے بھی نہیں کر سکے۔‘‘ (۵)

’’سرائیکی اور اُس کی نثر‘‘ (ایک مختصر تاریخی خاکہ) : سرائیکی اور اُس کی نثر۔ ایک مختصر تاریخی خاکہ‘ پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی اُردو میں لکھی ہوئی سرائیکی نثری اَدب بارے اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو 1982ء میں مکتبہ سرائیکی لائبریری بہاولپور کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ اِس کتاب میں سرائیکی نثری اَدب، باالخصوص سرائیکی نثر کی عہد مغلیہ اور سرائیکی زبان تحریکِ آزادی سے قیامِ پاکستان کے بعد تک کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ سرائیکی نثری اَدب و اَصناف (نثری تراجم، سرائیکی مرثیے میں نثر کا اِستعمال، سرائیکی اَفسانے، ناول، مضمون نگاری) اور سرائیکی نثر لکھنے والے لکھاریوں کے کوائف بارے یہ اپنی نوعیت کی اَوّلین کوشش ہے۔ مصنف پروفیسر دِل شاد کلانچوی لکھتے ہیں: ’’کسی زبان کی نثر ، کسی طرح سے نظم سے کم نہیں ہوتی۔ کیونکہ کوئی بھی زبان محض شاعری کو وسیلۂ حیات بنا کر منزل بہ منزل آگے نہیں بڑھ سکتی۔ خصوصاً آج کل کے مشینی دور میں تو نثر کے سوا چارہ نہیں۔ اِس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے میں نے بھی سرائیکی نثر سے متعلق یہ ابتدائی کام کیا ہے۔ اِس حوالے سے قبل اِس کے سرائیکی نثر میں کوئی کتاب نہیں ہے۔‘‘ (۶) کسی بھی زبان کی اَدبی تاریخ، شاعری اور نثر، دونوں پہلوؤں سے مکمل ہوتی ہے۔ سرائیکی اَدبی تاریخ نویسی کے ضمن میں زیادہ تر اَدبی تواریخ شاعری کے تذکرے و جائزوں پر مشتمل ہیں۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی یہ کتاب ’’سرائیکی اور اس کی نثر (ایک مختصر تاریخی خاکہ)‘‘ سرائیکی اَدب کے طالبِ علموں، اساتذہ، محققین کے لیے اِستفادے کا باعث ہے۔ سرائیکی نثر میں اِبتداء سے لے کر 1980ء تک جو نثری اصنافِ اَدب میں مواد شائع ہوا ہے پروفیسر دِل شاد کلانچوی نے اُس تمام شائع شدہ مواد کا ایک مختصراً تعارفی خاکہ پیش کیا ہے جو مستقبل میں سرائیکی اَدبی تاریخ لکھنے والوں کے لیے بنیادی مآخذ ہے۔ ’’سرائیکی اور اس کی نثر‘‘ (ایک تاریخی خاکہ)، اِس کتاب میں تین باب بنائے گئے ہیں پہلا باب بعنوان ’’سرائیکی زبان‘‘ جس میں سرائیکی زبان کے ماضی، اِس کی وجہ تسمیہ، سرائیکی زبان کی قدیم تاریخ، وادئ سندھ میں مسلمانوں کا اَوّلین دور اور سرائیکی زبان، سرائیکی زبان کا عہد مغل سے تحریکِ آزادی تک، سرائیکی زبان تحریک آزادی سے 1982ء تک کا تاریخی تہذیبی تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرا باب: ’’سرائیکی نثر‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اِس باب میں سرائیکی نثر بارے مختصر خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ سرائیکی کے کچھ پرانے الفاظ اور موجودہ سرائیکی کے اِبتدائی نقوش کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس باب میں سرائیکی میں ہونے والے نثری تراجم، سرائیکی مرثیے میں نثر کا اِستعمال، سرائیکی ناٹکوں اور ڈراموں میں نثر، سرائیکی افسانے، ناول، مضمون نگاری اور سرائیکی اخبارات و جرائد بارے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ ضمیمے کے عنوان سے پانچ ضمیمے کتاب میں شامل ہیں۔ ضمیمہ 1: چند سرائیکی لکھاریوں کے حالاتِ زندگی و دیگر کوائف پر مشتمل ہے۔ ضمیمہ 2: اِس میں چند مطبوعہ سرائیکی مضامین کی فہرست مع حوالہ اِشاعت شامل ہے۔ ضمیمہ 3 : اِس میں کچھ افسانہ نگاروں کے مطبوعہ سرائیکی افسانوں کی فہرست مع اشاعت پیش کی گئی ہے۔ ضمیمہ 4: اس میں چند خواتین افسانہ نگاروں کے مطبوعہ سرائیکی افسانوں کی فہرست مع حوالہ جات پیش کی گئی ہے۔ ضمیمہ 5: سرائیکی نثر کے چند اقتباسات اور مصنف و مؤلف بارے شامل ہے۔ ضمیمہ جات میں نثر نگاروں کے حالاتِ زندگی اور دیگر کوائف دیئے گئے ہیں وہ تذکرہ نویسی کی ذیل میں آتے ہیں۔ سرائیکی اور اس کی نثر (ایک مختصر تاریخی خاکہ)، میں کتاب کے آخر میں حوالہ جاتی کتب کی فہرست دی گئی ہے۔ یہ کتاب سرائیکی نثر کا قدیم عہد سے 1980ء تک کے اَدوار کا جائزہ پیش کرتی ہے۔ اِس کتاب کا دوسرا باب زیادہ اہم ہے جس کے بارے میں خود مصنف دِل شاد کلانچوی لکھتے ہیں: ’’دوسرے حصے میں سرائیکی نثر کے نقوش اُجاگر کرنے کی غرض سے تاریخی شواہد سے زیادہ معلوماتی مواد بہم پہنچایا گیا ہے تاکہ ماہرینِ لسانیات اِن جستہ جستہ نثری اقتباسات و معلومات کی روشنی میں سرائیکی نثر کے اِرتقاء کی کڑیاں آپس میں نہ صرف جوڑ سکیں، بلکہ انہیں مربوط بھی بنا سکیں۔‘‘ (۷) پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں سرائیکی نثری اَدب بارے تذکرہ و جزوی تاریخ کی بنیاد ڈالی گئی ہے جس سے یقیناًمستقبل کے محققین و مؤرخین، تنقید نگار اِستفادہ کر سکیں گے۔ سرائیکی اَدبی تواریخ میں پائے جانے والے اختلافات / رجحانات کے تناظر میں، دِل شاد کلانچوی کی اِس کتاب ’’سرائیکی اور اس کی نثر (ایک مختصر تاریخی خاکہ)‘‘ بارے تجزیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے نثر نگاروں کے حالاتِ زندگی اور دیگر کوائف بارے بنیادی معلومات مُہیا کی ہیں اور تخلیق کاروں کی نثر کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔ مثلاً: ’’غلام سکندر غلام: قصبہ سیال (ضلع میاں والی) کے رہنے والے تھے۔ 1878ء کو پیدا ہوئے۔ 1908ء میں اِنتقال کر گئے۔ ملتان کے نواح میں آباد رہے۔ سُنی مذہب و صوفی مشرب بلوچ تھے۔ اُن کی تصانیف بے شمار ہیں۔ جن میں بیاضِ غم، براہین غم، ماتمِ غم، مجلسِ غم، طوفانِ غم، مخزنِ غم، جوشِ غم، میزانِ غم وغیرہ شامل ہیں۔ ‘‘ (۸) معاصر اَدبی و مذہبی ماحول: نمونے کی چند مثالیں: ’’جہاں تک سرائیکی میں اِبتدائی تصانیف کا تعلق ہے اُن کا رنگ مذہبی ہے۔ بزرگانِ دین کے لکھے ہوئے قصے، کہانیاں ہیں اور یہ نا پختہ دور کی تحریریں ہیں اِن میں عبارت آرائی کُجا، عبارت کی درستی، قواعد کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہ نثری تخلیقات محض دینِ اِسلام کی تبلیغ کے لیے تھیں۔ ‘‘ (۹) ’’مرثیہ گوئی برصغیر میں سب سے پہلے ملتان سے شروع ہوئی۔ اُردو مرثیہ بھی یہیں سے برصغیر کے دوسرے دیار میں پہنچا۔ افسوس ہے کہ امتدادِ زمانہ کی وجہ سے اِس ابتدائی دور کا کوئی مرثیہ دستیاب نہیں ہوسکا۔ بہر حال سرائیکی مرثیہ بہت مقبول و محبوب رہا ہے۔ ‘‘ (۱۰) معاصر سیاسی و اقتصادی ماحول: نمونے کا اقتباس ملاحظہ ہو: ’’مغلیہ دور میں برصغیر سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ جب اُن میں نااہلیت اور نا اِتفاقی پیدا ہوئی تو غیر ملکیوں کی حریص آنکھیں برصغیر کی جانب اُٹھیں۔ سب سے پہلے ولندیزوں نے عرب اُمراء کو 914ھ / 1506ء میں شکست دی۔ مگر بہت جلد ذاتی اقابت کی وجہ سے مُغل حکمرانوں پر بے خوف ہو کر ولندیزیوں اور انگریزوں نے یلغاریں کیں۔ انہی دو قوموں کی تجارتی کمپنیوں نے بھی اپنا اپنا اثر رسوخ جمانا شروع کر دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے نمایاں کردار اَدا کیا۔ یہاں تک کہ تجارت کے جھنڈے تلے فوجی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ جس کے نتیجے میں برصغیر میں اُتھل پتھل شروع ہوگئی۔ تجارتی اور سیاسی کشمکش کے نتیجے میں 1178ھ / 1761ء میں انگریزوں نے فرانسیسیوں کی کمر توڑ دی۔ یوں وہ اپنے قدم برصغیر میں جمانے میں کامیاب ہوگئے۔ اِدھر سکھوں نے بھی اندرونِ ملک حالات کو سازگار سمجھتے ہوئے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ مگر ان کا عہدِ حکومت بہت کم عرصے تک قائم رہا۔ 50 ۔60 سال کے اندر اندر اُن کا سیاسی کھیل ختم ہوگیا۔ پھر ایک معاہدے کے تحت امیرانِ سندھ کی طرف سے سندھ کے تمام راستوں پر دریائے سندھ سے تجارتی استعمال کی اجازت دی گئی۔ بہت جلد معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریزوں نے سندھ سے فوج گذارتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اختلافات شدید ہوگئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 1259ھ / 1843ء میں مصلحت کے تحت انگریزوں نے سندھ کو مکمل طور پر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اِس سیاسی اقدام سے لسانی اَثرات مرتب ہوئے۔ چنانچہ سندھی، سرائیکی، ہندکو، اُردو، چار زبانیں ایک دوسرے کے قریب آگئیں۔ اِن میں سندھی زبان اورنگ زیب عالمگیر کے دور کی طرح سرکاری اور رابطے کی زبان کے طور پر سامنے آئی۔ دُنیا میں سب سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا۔ کہیں بعد میں اِس سے اُردو ترجمہ 1218ھ / 1803ء میں ہوا۔ نیز انگریز کے اقتدار قائم ہونے جانے سے بہت سارے انگریزی الفاظ سندھی میں آن شامل ہوئے۔ ملتان کے فتح ہونے کے بعد پنجاب کو بھی سلطنت برطانیہ میں شامل کر لیا گیا۔ پنجاب کا یہ ادغام 1266ھ / 1849ء کو لارڈ ڈلہوزی کے عہد میں ہوا۔ انگریزوں کے اِس اقدام سے دہلی اور پنجاب پر سیاسی، معاشی، معاشرتی اور لسانی طور پر ایک دوسرے کے قریب آگئے اور علاقائی زبانوں میں کافی تبدیلیاں ہوئیں۔ کیونکہ اِن دِنوں سرائیکی زبان کو پنجاب میں ایک مرکزی اہمیت حامل تھی۔‘‘ (۱۱) کسی بھی زبان کی اَدبی تاریخ، شاعری اور نثر دونوں پہلوؤں سے مکمل ہوتی ہے۔ سرائیکی اَدبی تاریخ نویسی کے ضمن میں اکثر و بیشتر اَدبی تاریخیں شاعری کے تذکروں پر مشتمل ہیں۔ پروفیسر دِل شاد کلانچوی کی یہ کتاب ’’سرائیکی اور اس کی نثر (ایک مختصر تاریخی خاکہ)‘‘ سرائیکی اَدب میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اِس کتاب میں سرائیکی نثری اَدب پر اپنے زمانے کے تاریخی، تہذیبی اور سیاسی اثرات بارے بحث کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔

حوالہ جات ۱۔ دِل شاد کلانچوی، ’’سرائیکی زبان تے اَدب‘‘، سرائیکی اَدبی مجلس بہاول پور، سالِ اشاعت، مئی 1987ء ، ص:7۔ ۲۔ قاسم جلال ، ڈاکٹر، ’’سُہنڑا‘‘دِل شاد کلانچوی نمبر (ماہانہ) بہاول پور، اشاعت، دسمبر 1992ء، ص:156۔ ۳۔ دِل شاد کلانچوی ’’سرائیکی زبان تے اَدب‘‘، ص:218۔ ۴۔ شوکت مغل، پروفیسر، ’’دِل شاد کلانچوی، فن اور شخصیت‘‘، اَکادمی سرائیکی اَدب (رجسٹرڈ) بہاول پور، اشاعت 24مئی 2004ء، ص:62۔ ۵۔ حمید اُلفت ملغانی، ’’لکھت تے لکھاری‘‘، سرائیکی اَدبی بورڈ (رجسٹرڈ) ملتان، اِشاعت، اپریل 2003ء، ص:163۔ ۶۔ دِل شاد کلانچوی، ’’حرفِ اوّل، ’’سرائیکی زبان اور اُس کی نثر‘‘، مکتبہ سرائیکی لائبریری بہاول پور، اشاعت 1982، ص:7۔ ۷۔ دِل شاد کلانچوی، ’’سرائیکی زبان اور اُس کی نثر‘‘، مکتبہ سرائیکی لائبریری بہاول پور، اشاعت 1982، ص:182۔ ۸۔ ایضاً، ص:62 ۹۔ ایضاً، ص:92 ۱۰۔ ایضاً، ص:92 ۱۱۔ ایضاً، ص:93

ورقہ "سرائیکی ڈکشنریاں" تے ولدا واپس ون٘ڄو۔