گومل یو نیورسٹی کی زمین کس نے دی؟حقائق منظرعام پر

سیف اللہ بیقرار

گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈ یا پر ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس میں قبر مبارک کا کتبہ دکھایا گیا ہے اور ساتھ ہی صاحب پوسٹ نےکچھ تحریر بھی کر دی ہے

جسکی عبارت کچھ اس طرح ہے محسن ڈیرہ نواب اللہ نواز خان سدوزئی نے گومل یو نیورسٹی کی صورت میں اپنے علاقے کے ایک بڑے تعلیمی پروجیکٹ کو کامیابی سے پایہ

تکمیل تک پہنچایا اور یونیورسٹی کے لیے اپنی ہزاروں کنال زمین دان کر دی اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماۓ آمین

یہ کتبہ واقعی ڈیرہ کے نواب اللہ نواز خان سدوزئی کا ہے جنہیں گومل یو نیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ہونے کا اعزاز حاصل ہے مرحوم ایک نامور خاندان کے چشم و چراغ ہیں

اور اسے ڈیرہ اسماعیل کی سرزمین سے والہانہ محبت تھی اس ہی خاندان کے نامور سپوت والی ملتان نواب مظفر خان سدوزئی بھی تھے جنہیں سکھ حملہ آوروں نے 2 جون

1818ءکو بیٹیوں اور بیٹی سمیت شہید کر کے ملتان پر قبضہ کیا تھا ڈیرہ کی سرزمین سے مرحوم کو جتنی محبت و عقیدت تھی اس سے کہیں بڑھ کر یہاں کے باسیوں کا ان سے محبت

واحترام کا تعلق ہے اور وہ یقینا قابل قدر شخصیت کے طور پر نمایاں حیثیت کے مالک تھے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی کاوش کواگر مرحوم سے جوڑا جائے چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں

نہ ہولوگ اسے بغیر تحقیق کے مان لیتے ہیں یہ ان کی شخصی قدامت تھی جہاں تک نواب اللہ نواز خان مرحوم کا گومل یو نیورسٹی کے قیام اور زمین دان کرنے کی بات ہے تو اس

سے مرحوم کا دور سے بھی واسطہ نہیں ہے چونکہ حقنواز خان گنڈہ پور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں عوامی سیاست کا جو ماحول بنایا تھا اسے پیپلز پارٹی کے قیام سے فروغ حاصل

ہوا کیونکہ پی پی پی کی عوام رابطہ مہم جوبظاہر جا گیر داریت کے خلاف تھی ۔اس لیے سیاسی ورکر اپنے بنیادی حقوق سے واقف ہوکر اسکے حصول کے لیے باشعور ہور ہے تھے

حقو از خان کی ناگہانی موت کے بعد پی پی پی کی ضلعی صدارت شائستہ خان بلوچ کو دی گئی تھی ۔ پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی پی پی پی کے

ورکروں نے شائستہ خان کی قیادت میں اپنے ڈیرہ کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد شروع کر دی اور اس سلسلے میں انہوں نے بھر پور آواز بلند کی پی پی پی کے اقتدار

سنبھالنے کے بعد حقنواز کی پہلی برسی نہایت ہی شایان شان طریقے سے منانے کا اہتمام کیا گیا۔ برسی کے موقع پر وفاقی وزراء فیڈرل ایجوکیشن و بین الصوبائی وزیر

عبدالحفیظ پیرزادہ ،خورشید حسن میر ،معراج محمد خان اور حیات محمد خان شیر پاؤ کو بھی مدعو کیا گیا پی پی پی کے ضلعی صدرشائستہ خان بلوچ کی قیادت میں ورکرز نے یونیورسٹی

سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے کئی اہم مسائل کے مطالبات کیے جن میں سے یو نیورسٹی کے قیام پر اتفاق کیا گیا جس کا با قاعدہ طور پر نواز پارک میں فیڈرل ایجوکیشن

منسٹر نے اعلان کر دیا جس کی وجہ سے دوسرے دن جمیعت علمائے اسلام کے ایم این اے مولانا صدرالشہید نے بنوں میں جلوس نکالے کہ یونیورسٹی ہو گی تو بنوں میں ہوگی

ڈی آئی خان میں نہیں بننے دیں گے ڈیرہ اسماعیل خان کے ملازمین کو بھی بنوں سے بے عزت کر کے نکال دیا گیا اور ساتھ ہی ڈیرہ سے پیشاور جانے کا راستہ بھی

منقطع رہاڈیرہ کے باسی ہنگاموں کے دوران براستہ چشمہ بیراج استعمال کرتے ہوئے پشاور جایا کرتے واضح رہے کہ اس وقت مولانامفتی محمودصو بہ سرحد کے وزیر اعلی تھے ڈیرہ

میں اگر کوئی جلوس اس بابت نکلتا تو اس پر لاٹھی چارج ہو جا تا اہم شخصیات کوگرفتار کر لیا جاتا اس طرح پی پی پی کے سیاسی ورکرز کی بھر پور جد و جہد کے بعد بالآخر بحثیت

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈیرہ اسماعیل خان آ کر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا یہ جو عام تاثر ہے کہ یونیورسٹی اسی زمین نواب اللہ نواز خان نے دان کی تھی

۔ سراسر جھوٹ من گھڑت بد نیتی اور خلاف حقیقت یہ صرف اتنے بڑے منصوبے کا کریڈٹ کسی غریب ورکرز کو ملنے کی بجائے نوکر شاہی نے نواب صاحب کو دان کردیا

اور عوام نے اسے سچ سمجھ لیا ہے۔

کیونکہ محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق یہ رقبہ پراونشل گورنمنٹ کا ہے جس میں کھانی نمبر 1 کے 254 قطعات رقبہ تعدادی 8608 کنال پرمشتمل موضع را کھ پی پی میں

واقع ہے ۔ جسکا انتقال مورخہ 12/12/1974 کو پراونشل گورنمنٹ بنام گول یو نیورسٹی تصدیق ہوا اس میں قانونی پیچیدگی تھی جیسے 15/01/1979 کو درست کرنے

کے لیے پراونشل گورنمنٹ بنام محکم تعلیم صوبہ سرحد کیا گیا تاہم قانونی سقم دور کرنے کے لیے سول عدالت سے مقدمہ نمبر 362/1 مورخہ:17/07/2003 کور جوع

کیا گیا ۔ بعدالت سول بیج نمبر 3 نے مورخہ 1 3اکتوبر 2007 کوگومل یونیورسٹی کے میں حق ڈگری جاری ہوئی جس کا انتقال تبدیلی ملکیت

مورخہ 20 نومبر 2007 کو با قاعدہ طور پر 254 قطعات پر مشتمل آٹھ ہزار چھ سوآٹھ کنال پراونشل لینڈ گومل یو نیورسٹی کے نام منتقل ہوگئی تھی اس کے تمام تر

ر یونیور ریکارڈ سے لیکر عدالت کی ڈگری تک کہیں بھی نواب اللہ نواز خان کا نام ذکر تک نہیں ہوا البتہ نوابی کے بل بوتے پر نواب صاحب گومل یو نیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر

بنے میں کامیاب ہو گئے اس وقت نواب صاحب لاہور کے گندے نالے پر رہائش پذیر تھے اور نواب احمد رضا قصوری کے ساتھ قرابت داری ومحلہ داری تھی احمد رضا

قصوری پی پی پی کی ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوۓ تھے جو بعد میں پی پی پی سے اختلاف کر کے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کا سبب بھی بنے تھے ان کی سفارش پر نواب اللہ

نواز خان وائس چانسلر بنائے گئے جنہوں نے ضیاء الحق کو خوش کرنے کے لیے ذوالفقارعلی بھٹو کا افتتاحی کتبہ توڑ ڈالا تھا جسے دوسرے وائس چانسلرعلی خان نے دوبارہ نصب

کرایا تھا اور یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی میں بھی بھر پور کردار ادا کیا۔

بشکریہ روزنامہ اعتدال مورخہ یکم جنوری 2020